پومپیو کا دعویٰ : طالبان کے ساتھ مذاکرات میں”اہم پیشرفت”۔ کیا واقعتاً ایساہی ہے
سکریٹری برائے خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ جاری امریکی امن مذاکرات میں "پیشرفت”کوقابل ذکر کہاہے
غنی اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ ، جنھیں پومپیو نے علیحدہ علیحدہ کال کی ، دونوں نے ممکنہ طور پر "تشدد میں کمی” کے بارے میں خوشی کا اظہار کیا ، لیکن انہوں نے ٹویٹر پر بیانات میں اشارہ کیا کہ کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی بات چیت سے یہی باتین گردش کر رہی ہیں ، جسے مذاکرات کے بارے میں اندر کی خبر رکھنے لوگوں نے کہا کہ شاید اس پر عمل پیرا ہونے میں سات سے دس دن کاوقت لگ سکتا ہے۔
بات چیت کے اس دور کو عسکریت پسندوں کی طرف سے نیک نیتی کے اظہار کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس بات چیت کے ختم ہونے کے کچھ دن کے بعد ہی ایک اور باضابطہ طالبان-امریکی معاہدہ پر دستخط ہوسکتے ہیں۔ اس معاہدے میں اگلے ماہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات کا آغاز ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کے انخلا کا آغاز شامل ہوگا۔
عبد اللہ نے ٹویٹ کیا کہ پومپیو نے ” امید ظاہر کی ہے کہ تشدد میں کمی اور موجودہ مذاکرات میں پیشرفت ایک ایسے معاہدے کا موجب بن سکتی ہے جس سے پائدار امن کی راہ پیدا سکے۔”
محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ، "دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی بات چیت بدستور تشدد میں کمی بارے میں جاری ر ہے گی۔”
مذاکرات کی خبر رکھنے والے ایک شخص نے کہا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اگر معاہدے پر اتفاق رائے کے بعد تشدد دوبارہ شروع ہوا ، یا عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے مابین بات چیت کا آغاز نہ ہو پایا تو اس سے طالبان -امریکی کے معاہدے کی کیا حیثیت ہوگی۔ اس شخص اور دیگر واقف حال اشخاص نے اپنی ا شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پریہ بات بتائی تھی۔
ستمبر میں ، امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ عارضی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس پر دستخط کرنے کے لئے طالبان رہنماؤں کو کیمپ ڈیوڈ پر لانے کا ارادہ کیا تھا ، لیکن انہوں نے اس ملاقات کو ختم ہی کردیا تھا – جس کے بعد میں طالبان کا موقف تھا کہ ان کا ایسی کسی بات یا ٹرمپ سا ملاقات پر اتفاق نہیں ہوا تھا – اور اس کے بعد ، عسکریت پسندوں نے کابل میں ایک حملےکی ذمہ داری کا سہرا اپنے سرلیا تھا۔ جس نے ایک امریکی فوجی کو ہلاک کرہوا۔
اس مسودے میں اتفاق کیا گیا تھا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں طالبان تعاون کریں گے ، جیسا کہ دولت اسلامیہ ، اسی طرح امریکی واپسی اور اندرون افغان مذاکرات میں بھی تعاون کریں گے- اور سب سے اہم بات یہ جو اس مسودے میں سب سے پہلے اور اوپر لکھی تھی وہ یہ کہ فوری ملک میں جنگ بند کی جائے گی ۔
ٹرمپ نے نومبر میں اعلان کیا تھا کہ یہ بات چیت دوبارہ شروع ہوگئی ہے ، لیکن خبر یہ ہے کہ اس پر کوئی بھی پیشرفت ابھی تک محدود ہی ہے۔
صدرغنی کے دفتر کے مطابق ، خلیل زاد نے عسکریت پسندوں کے ساتھ حالیہ گفتگو اور پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بارے میں بریفنگ کے لئے ہفتے کے روز کابل میں غنی سے ملاقات کی۔
ان کے دفتر نے مزید کہا "ہم ایک ورکنگ میکانزم کی بنیاد پر جنگ بندی یا تشدد میں دیرپا کمی کے لئے طالبان کی طرف سے واضح جواب کا انتظار کر رہے ہیں جو افغانستان کے عوام اور امریکی حکومت کے لئے قابل قبول ہو۔”
گذشتہ ہفتے اسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب میں ، ٹرمپ نے کہا تھا کہ "ہمارے جنگجوؤں کے عزم اور بہادری نے ہمیں اس زبردست پیشرفت بہت مدد دی ہے ،” اگرچہ امریکی حکومت کی رپورٹوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ 2019 کے آخری سہ ماہی کے دوران طالبان کے حملوں کی تعداد ایک دہائی میں سب سے زیادہ تھی ۔
لیکن ٹرمپ ، جنہوں نے امریکہ کی "نہ ختم ہونے والی جنگوں” کو روکنے کا وعدہ کیا تھا نے کہا "اب امن کی بات چیت جاری ہے” اور "ہم آخر کار امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے اور اپنی فوج کو وطن واپس لانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔”
کہا جاتا ہے کہ ستمبر میں ہونے والے معاہدے کی طرح طالبان-امریکی اس نئے معاہدے کی شرائط قریبأ ایک جیسی ہی ہیں۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہےکہ آیا کسی بھی ابتدائی انخلا سے امریکی فوج کی تعداد 12،000 سے کم ہو کر 8،600 ہو جائے گی یا اس سے بھی کم یا نہیں ہو گی ابھی تک ایسا کچھ بھی واضح نہیں ہے۔
افغان حکومت کی مذکراتی ٹیم کی تشکیل ‘ جو پہلے معاہدے کا ایک اہم نقطہ ہے ‘ بھی ابھی تک غیر یقینی ہے۔ افغان عہدیداروں نے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ ستمبر میں ہونے والے الیکشن میں 50 فیصد سے زیادہ کے ساتھ دوبارہ انتخاب جیت لیا ہے۔تاہم ابھی تک وہ دوسرے مرحلے کے الیکشن سے باغی ہیں۔
لیکن عبداللہ ، جو غنی کے مخالف ہیں نے ان نتائج کو چیلنج کیا۔اور غلط کہا ہے۔