امیر المومنین عمر فاروقؓ کے عہد میں طاعون پھیلا تو موجودہ الفاظ میں قرنطینہ کے اصول پر عمل کیا گیا اور اتنی سختی سے عمل کیا گیا کہ وبا ءشام اور عراق سے باہر نہ نکل سکی۔ اس اثنا میں حضرت عمرؓ شام کی طرف روانہ ہو چکے تھے کہ مفتوحہ ممالک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں سے درست فرمائیں۔ تبوک کے قریب پہنچے تو وبا کی اطلاع ملی۔ اسی اصول کے تحت آگے جانے کے بجائے‘ واپس ہو گئے۔ پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جن میں حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح اور شرجیل بن حسنہ رض جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ کیا ان حضرات سے زیادہ بھی کوئی سچّا اور ایمان والا تھا؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی کہ طاعون نے انہیں شہید کر دیا؟
جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔(صحیح مسلم: 2231)
گویا ایسے موقعے پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، (بخاری: 5707)
گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،
سرکارﷺ کا فرمان ہے، اونٹ کی رسی باندھو اور پھر توکل کرو۔ (ترمذی: 2517)
گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔